Monday, May 15, 2023

ڈیزل مافیا اور اجڑتا کنٹانی ھور

تحریر: کے بی فراق

کُنٹانی ھُور  کبھی  جھینگے  و پاپلیٹ کے  شکار کے لیے ایک بہترین شکارگاہ ہوا کرتا تھا اور یہ جگہ جھینگے کی پیدائش و پرورش کے لیے بہترین جگہ تھی۔

جس میں جیونی اور گوادر کے ماہیگیر سال بھر روزگار کرتے تھے۔ اربوں روپے کے جھینگے و دیگر مچھلیاں شکار و فروخت اور  ایکسپورٹ سے مملکت خداداد  کو خطیر رقم  کی شکل میں زرِ مبادلہ ملا کرتا تھا۔

البتہ ماہیگیر کے لیے تب بھی سوشل سیکیورٹی نہ ہونے کے سبب ایک غیر یقینیت کی صورت رہی ہے۔

اب کے یہ جگہ ڈیزیل مافیا کے استعمال میں دے دی گئی۔ اور ایک طرح سے اس جگہ سے جھینگے اور پاپلیٹ تو ختم ہوگئی کیونکہ  ڈیزل گرنے سے ایک  تو  ماحولیات پر ناقابل تلافی خطرات لاحق ہوئے اور ماہیگیری کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا بلکہ ختم کیا گیا۔۔۔۔۔ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے بھی خاموش ہیں۔

بلکہ شارٹ کٹ پیسے کمانے کے چکر میں اپنی مقامی ساختہ کشتیاں بیچ  کر ایران سے کائیک خرید  لیے گئے اور کاروبار میں لگ گئے۔

مقامی کشتیاں بلوچ کے کلچرل اور ٹینجیبل ہیریٹیج کے طور پر شناخت  کیا جاتا  تھا۔ اور یہ بھی  دیگر نادر  ہیریٹیج کے شکل میں ختم ہوئے اور اس سے جُڑے ہنرمند بھی اس کام سے دستبردار ہوئے کہ اس سے کچھ بھی حاصل ہونا ممکن نہیں رہا۔

اور پھر  ڈیزل کی کمائی نے بہتوں  کے لیے  عجیب طرح کے نفسیاتی مسائل پیدا کیے اور اس طرح کے لوگ کشتی سازی کے بجائے پھر ماہیگیری یا کچھ اور کام کرنے لگے۔

جس  پر انتظامیہ، ماہیگیر تنظیم دوٹوک رائے اور  کردار ادا کرنے سے معذور ہیں۔

جبکہ نومولد و ڈیزل مافیا   کے  اسپانسرڈ تحریک بھی چُپ کر بیٹھے ہیں۔۔۔۔کیونکہ اس میں انویسٹر کو نقصان ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔۔۔اس لیے کچھ نہ کہنا بہتری سمجھ لیا گیا یا اس میں برکت جان لیا۔

اور  مقامی پیادے اپنا آبائی روزگار  ماہیگیری  چھوڑ کر اور نودولتیہ و کاروباری بھی یہی طور اپنائے ہوئے ہیں اور دانستہ  اپنے ہاتھوں یا کسی دور پار کے مافیا سرشت کے سہولت کار  کے  طور  پر آبی حیات اور  کُنٹانی ھُور  و دیگر شکارگاہ کو زندگی کےآثار سے اور قدرتی وسائل و آبی حیات کو تلف کرانے کا باعث بن رہے ہیں۔

دھیان رہے کنٹانی ھُور میں کائیک میں کام کرنے والے خلاصی حادثہ کے سبب اپنی زندگیاں گنوا چکے لیکن مالکان کو اس میں کوئی دلچسپی  نہیں اور  ایک  حسن عبدالصمد نام کا میرے  بچپن کا دوست  اور  اہلِ محلہ اب تک اس کی کوئی خیر خبر نہیں۔

کیونکہ انکی محنت سے مافیاسرشت تو اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں۔۔۔لیکن پیادے کارکن  کی زندگیاں سمندر کی نذر ہو جاتی ہیں۔ جبکہ اس بارڈر کاروبار سے مقامی لوگوں کے لیے کسی بھی سطح پر آسانی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی مہنگائی سے نجات کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ حالانکہ بارڈر کا مقصد اپنے آغاز سے یہی تھا کہ مقامی لوگ اس سے مستفید ہوں۔ لیکن اُس وقت کے بعد ،اب کے صورت حال یکسر برعکس ہو رہا ہے۔

اور لوگوں کی حالت ایرانی اشیائے خورد ونوش اور ایندھن کے حصول کے لیے ازیت کوش کی سی ہے۔

No comments:

Post a Comment

Pages