دو تصاویر، دو کہانیاں
تحریر: یلان بلوچ
ایک جانب آئین وقانونی جدوجہد پر یقین رکھنے والے مولانا ھدایت الرحمن بلوچ کی تصویر ہے جو اس پاداش میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلے گئے ہیں کہ وہ کیوں گوادر وبلوچ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
جبکہ جیونی سے لیکر اورماڈہ تک سڑک کے دونوں اطراف لگے بورڈز واضح اشارہ ہیں کہ یہاں اب مقامیوں کیلئے سوائے مشکلات ومصائب کے اور کچھ نہیں تاکہ وہ اپنی بچی کچی زمینیں بھی ان کے حوالے کریں جنکی نظریں خوبصورت ساحل اور سرزمین پر مرکوزہیں۔
کسی بھی انسان کیلئے اگر کسی زمین کو نوگوایریا بناناہے تو وہاں کے باسیوں کیلئے انکی زمینیں ان سے ہتھیالو،پھر آہستہ آہستہ پانی، روزی روٹی بند کرو، پھر بات نہ بنے تو عزت نفس پر وار کرو۔
گوادر کی زمینیں تو وہ معمولی داموں یا جبر وزبردستی ہم سے لے گئے اور ہم چند عارضی وزاتی مفادات کی خاطر مستقبل اور آنے والی نسلوں کا سودا کرگئے، زمینوں پر قبضہ کے بعد گوادر شہر کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پانی کے بحران سے دوچار کیاگیا دنیامیں کئی ریاستیں ہیں جو کروڈوں آبادی کو سمندر کا کھارا پانی صاف کرکے پلاتے ہیں، زراعت کرتے ہیں جبکہ ضلع گوادر جسکی آبادی بمشکل 4لاکھ ہے وہ صاف پانی کیلئے ترستی ہے کیا یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں۔
گوادر کے عوام کی ذریعہ معاش ماہیگیری کاشعبہ ہے، جسے طاقت ور اشرافیہ اور وفاقی اداروں کی سربراہی میں ٹرالرز مافیا کے حوالے کردیاگیاہے جہاں آئے روز ماہیگیر سراپا احتجاج ہیں اور حق دو تحریک کا ایک اہم مطالبہ ان ٹرالرز کو معاشی قتل سے روکنے کاہے مگر اس پر نا وفاقی حکومت نے سنجیدگی سے اقدام اٹھایاہے نا صوبائی حکومت حالت یہ ہے کہ جو محکمہ فشریز سمندر کی حفاظت کیلئے بنائی گئی ایک فورس ہے نا اسکے پاس جدید اسلحہ ہے اور نا افرادی قوت بلکہ محکمہ کا ایک زمہ دار آفیسر دوران ڈیوٹی ٹرالروں کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو خود یرغمال ہوجاتاہے اور ٹرالر مافیا میرین سیکورٹی ایجنسی سمیت دیگر اداروں کے ناک کے نیچے کراچی تک 24گھنٹوں کا سفرکرکے دیدہ دلیری سے ویڈیو بھی بناتے ہیں اور ان پر آج کے دن نا صوبائی حکومت نے ایف آئی آر درج کرنا گوارہ کیا ناہی محکمہ فشریز نے کیا یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں کہ بلوچ یا باسیان گوادر کا معاشی قتل کرکے انہیں بھوک وافلاس سے مارا جائے اور نکالا جائے۔
گوادر ہماری زندگی وموت کا مسئلہ ہے مگر حکمران مختلف اوقات میں مختلف بہانوں سے گوادر کو اسلام آباد کی جدی پشتی زمین قرار دیکر یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم نے خریداہے۔
تب ہی تو آج مولانا ھدایت الرحمن بلوچ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کا جرم نا عدالت ثابت کرسکا ناملکی ادارے۔ہر پیشے کےبعد جج صاحب فرمان دیتےہیں کہ اگلی پیشی فلاح مہینے کی فلان تاریخ کو ہوگی اور پھر اسے جیل بھیجا جاتا ہے۔
ایک اور بدقسمتی یہ ہیکہ اس تمام تر مرحلے میں بلوچ سیاسی پارٹیاں وقتی وزاتی مفادات اور اقتدار کی خاطر زیرلب ہنستے نظر آتے ہیں اور طنز کے نشر چلاتے ہیں کہ اب دیکھو نا مولانا صاحب کب تک جیل برداشت کرسکیں گے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔
دوسری کہانی ایک ایسی خاتون کی ہے کہ جسے چندماہ قبل کوئٹہ میں انکے گھر سے انکی بوڑھی ماں و بے سہارا بچوں کیساتھ اٹھا لیا گیا۔
سب نے دیکھ لیا کہ وہ گھر سے اٹھائی گئیں، مگر اسے سی ٹی ڈی نے دہشتگرد ظاھر کرکے ان سے بمب وبارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیاگیا، کیونکہ پاکستان میں شراب شہد بن سکتی ہے تو بلوچ معصوم خاتون سے بمب وباردو برآمد کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔
ماہل بلوچ ایک مجرم ہے (مقتدرہ کی نظرمیں) مگر اس مجرم کے ذریعے زہن سازی کی جارہی ہے اور ٹی وی چینلوں میں ان سے وہ بیان دلوا جارہاہے کہ جنکا ناکوئی سراہے ناپاؤں۔
معصوم و پرنم آنکھوں سے ٹی وی چینل میں چالاک اینکرپرسن کے سوالوں کی جواب دے رہی ہیں، مگر بدقسمتی ہیکہ مولانا ھدایت الرحمن بلوچ اگر قومپرستوں کے سامنے ووٹ والیکشن میں رکاوٹ بنتےہیں تو انکی قیدپر دو لفظ بولنا انہیں گوارہ نہیں مگر ایک معصوم وبےگناہ خاتون کیساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے اور اس پر قومی کیڈرز، قومی لیڈر، خواتین کے نام نہاد حقوق کے علمبردار، سول سوساٹیز، سمیت سب کو سانپ نے سونگھ لیاہے۔
مولانا ھدایت الرحمن کے چند الفاظ پر قومی غیرت کے محافظ جو شور مچا رہےتھے ماھل بلوچ کیلئے سب پر سکتہ طاری ہے۔
انکی خاموشی، لبوں پر تالے، مفادات کو تحفظ دینے کے سوا کچھ نہیں اور ان سے قومی سرزمین اور قومی حقوق اور ساحل وسائل کی حفاظت کاتوقع رکھنا محض عبث ہے۔
No comments:
Post a Comment