تحریر: جاویدحیات
اس سال جب 2 فروری کو گوادر پورٹ کے احاطے میں بزنس سینٹر کے سامنے خضر علیہ السلام کے ٹھکانے کے قریب مجھے قدیمی مندر کانٹے دار جھاڑیوں میں گرا نظر آیا تو میری سوچ کے دریچوں سے کبوتر اور گراگ پرندے ماضی کی حسین یادیں اپنے پروں سے باندھے اڑنے لگے
مندر کے احاطے سے لیکر شمشان گھاٹ کی ساری زمین موہن گور کے والد دمولال کی تھی،دادی ماں نے یہ بھی بتایا کہ کوہ باتیل کی چڑھائی سے اترتے ہی پہاڑ کے دامن میں دیمی زر کی سمت ہندوؤں کا ایک بڑا شمشان گھاٹ تھا،جس جگہ پر آج گوادر پورٹ کا مین گیٹ بنا ہے
خدا کا شکر ہے کہ مندر کا یہ تاریخی ڈھانچہ ابھی تک سلامت ہے پھر مجھے یہ خوف بھی لاحق ہوگیا کہ اس ایریے میں کنسٹرکشن کمپنی کا تعمیراتی کام بھی تیزی سے جاری ہے خدانخواستہ ایک دن کسی کرین یا ایکسیویٹر کی گردن گھوم گئی تو مندر کا گنبد مسخ ہوجائے گا
2 فروری سے 26 مئی تک گوادر پورٹ کے چیئرمین پسندخان بلیدی صاحب نے اس تاریخی ہیریٹیج کو مکمل پروٹیکشن دینے کیلئے ذاتی دلچسپی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ تاریخی مندر گوادر پورٹ کا ایک انمول سرمایہ ہے
مجھے یاد ہے 2002ء کو جب Chec کمپنی گوادر پورٹ کی تعمیر میں مصروف تھی تو ایک شام میں ملابند کی پرانی بستی میں گھومنے چلا آیا،چلتے چلتے میں مندر تک جا پہنچا، میں نے دیکھا کچھ مزدوروں نے اس مندر میں اپنا آشیانہ بنایا ہوا ہے اور ایک آدمی وہاں عصر کی نماز پڑھ رہا تھا_ان سب مزدوروں کا تعلق خضدار سے تھا
اس سال گوادر کتب میلے میں پرنسپل خدا بخش ہاشم صاحب نے اپنی شگفتہ گفتگو سے اس مندر کے خدوکال اور زیادہ نمایاں کر دیے
" عرش کرشی کے ڈگار (کھیت) کے آخری حصے میں یہ مندر موجود تھا جہاں پہاڑ کے دامن میں پگڈنڈی کی صورت خضر کے نام سے کنڈگ (چڑھائی) آج بھی دور سے دکھ جاتی ہے_ پتھروں سے بنے مندر کی ایک چاردیواری تھی جس کی دیواروں میں چراغ اور چمنیاں رکھنے کے واسطے دریچے نما بنے ہوئے تھے، اس طرح کے چمنی دان صرف مندر میں نہیں، اس شہر کی مسجدوں اور پرانے مکانوں میں بھی دکھ جاتے ہیں، میرے اپنے آبائی گھر کی چاردیواری میں چراغ رکھنے کیلئے اس طرح کے دریچے بنے ہوئے تھے
اس مندر کے ساتھ پہاڑ کے نزدیک دو چھوٹی کوٹھیاں بھی تھیں_ مندر کے پچھواڑے ہندوؤں کا شمشان گھاٹ تھا جہاں چندن کی لکڑیوں کے اوپر چتاؤں کو آگ لگائی جاتی تھی مگر ہم نے اپنے دور میں یہاں چتائیں جلتی نہیں دیکھیں کیونکہ پاکستان بننے کے بعد بیشتر ہندو خاندان یہاں سے مائیگریٹ کر گئے تھے
اسکے علاوہ میں نے اپنے بچپن میں ایک اور مندر کنڈگ کے نیچے دیکھا تھا، اس مندر کے احاطے میں ایک نیم کا درخت بھی تھا اور وہاں ایک غار بھی بنا ہوا تھا جسکے اندر غالباً اس وقت کے سادھو، پنڈت پوجا پاٹ کرتے تھے مگر میں نے ان دونوں مندروں میں پنڈت اور بھگوان کی مورتیاں نہیں دیکھیں، شاید وہ باہر پھینک دی گئی ہوں یا توڑ دی گئی ہوں، اس زمانے میں مقامی ہندو بڑی تعداد میں گوادر چھوڑ کر جارہے تھے ہم نے ان مندروں کو اس وقت بہت ویران پایا_آخر میں جب ایک مقامی ہندو شخص کی مرتیو ہوگئی تھی تو اسکی چتا کو کالاٹیمبک کانجل کے مقام پر اگنی دی گئی تھی
دادی ماں نے اس مقامی ہندو تاجر کا نام بھی مجھے بتایا کہ جب اسکی چتا کو کنڈگ کے نیچے اگنی دی گئی تھی تو اس کا داہنا ہاتھ نہیں جلا، میں اس شخص کا نام بھول گیا ہوں، مجھے جب بھی ماضی کے نایاب نگینوں کو کھوجنا ہوتا ہے تو میں ماما کے آستانے آجاتا ہوں
جب میں نے شاہی بازار کے پان ہاؤس میں ماما ابراہیم سے اس مقامی ہندو تاجر کا نام پوچھا تو وہ مسکرا کر بولے، " یہ نام برسوں تک پان مصالحوں کے ان خالی ڈبوں کی طرح ذہن کے کسی کونے میں پڑا تھا لیکن آج مجھے وہ نام یاد نہیں آرہا، گوادر میں مقامی ہندوؤں کے دو شمشان گھاٹ تھے، پہلا کنڈگ کے نیچے تھا دوسرا کوہ بن میں جہاں آج کل مولانا ریاض کا مدرسہ ہے_ میرے دو ہندو دوستوں ریوا اور کرشن کی جب فوتگی ہوئی تو انہیں اسی کوہ بن والے شمشان گھاٹ پہ اگنی دی گئی، میں ان دونوں کے جنازوں میں شامل تھا_پھر انکی راکھ چھوٹی مٹکی میں بھر کر کانجل کے مقام پر سمندر میں بہاتے تھے_ میں نے اپنے بچپن میں زیادہ تر اسی شمشان گھاٹ میں چتائیں جلتی دیکھی ہیں، مسلسل آگ کی تپش سے وہ ریتیلی زمین سرخ پتھر کی شکل میں ڈھل گئی تھی_"
اس مقامی ہندو تاجر کا نام کھوجنے میں میری کتاب نے میری بہت رہنمائی کی_ بلوچ بک اسٹال کے مالک ماسٹر امام بخش نے مجھے بتایا، "اس مقامی ہندو تاجر کا نام کوڑو تھا، وہ شادی شدہ تھا لیکن مجھے لگتا ہے اسکی کوئی اولاد نہیں تھی_"
موسیٰ موڑ پہ بیٹھا میری کتاب کا اہم کیریکٹر پراسرار آدمی ملا احمد سارتو نے بتایا،
"اس ہندو تاجر کا نام کوڑو تھا، اسکے بال بچے بھی تھے_ کوڑو کی دکان پر پہلے عبداللہ نامی لڑکا کام کرتا تھا،اسے بھی لوگ اپنے باپ کے نام سے نہیں عبداللہ کوڑو کے نام سے پکارتے تھے_وہ جب مسقط چلا گیا تو مسقط جانے سے پہلے اس نے ہاشم کو دکان پر بٹھایا، اب معلوم نہیں وہ کوڑو کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے دکان پر آیا تھا یا اسکی فوتگی کے بعد پھر یہ دکان ہاشم کوڑو کے نام سے مشہور ہوگئی_
دو تین دفعہ اسکے ہاتھ کو چتا کی آگ میں رکھا گیا مگر وہ جلا نہیں، اچھل کر باہر آ گرا پھر اس ہاتھ کو دفنایا گیا_
(دست پچیں مردمے بوتگ) وہ قریبی مسجد کے لالٹین کے لیے گاسلیٹ کی شیشی دینا کبھی نہیں بھولتا تھا، اسکے دروازے سے آدمی اور جانور بھوکے نہیں لوٹتے تھے_ وہ کیڑے مکوڑوں کو بھی کھلاتا تھا_"
ماسٹر امام بخش کے مطابق کوڑو کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن ملا احمد سارتو کا کہنا ہے کہ میں نے خود کوڑو کی دکان سے اسکے بچوں کی آوازیں سنی ہیں_ اس اہم نقطے کی تلاش میں مجھے ہاشم کوڑو کے فرزند خورشید بلوچ کے میڈیکل اسٹور جانا پڑا_
اس نے مجھے اپنے میڈیکل اسٹور میں بٹھا کر پانی پلاتے ہوئے بتایا، " اس کا پورا نام کوڑومل تھا، اسکی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا گوادر ہی کی پیدائش ہیں_ کوڑومل کے چار بچے تھے، اسکی بیوہ کا نام رادھا ہے، وہ کراچی سے بحری جہاز کے ذریعے بمبئی کیلئے روانہ ہوگئے، میرے والد ہاشم نے ہی انکی روانگی کا سارا انتظام کیا تھا_
میرے والد نے کہا کہ کوڑومل اتنے حساس اور رحم دل تھے کہ دکان بند کرتے سمے وہ گودام میں چوہوں کیلئے بھی خوراک رکھتا تھا_
میں مارچ یا فروری 1988ء کو ہندوستان کے شہر جےپور میں کوڑومل کی پوتی اسکے بیٹے شیوارام کی بیٹی کی شادی پہ گیا تھا_"
خورشید بلوچ نے کوڑومل اور آبی پرندوں کا جو قصہ سنایا یہ کہانی میں نے 2007ء کو سول اسپتال کے جنرل وارڈ میں دیر رات تک اپنے ابا کی زبانی بھی سنی تھی، ان دنوں میرے والد ٹی بی کے پیشنٹ تھے_اس رات تیز بارش ہورہی تھی اور ہم دونوں کا بھوک سے برا حال تھا، اس نے کوڑومل کی ایک خوبی بتائی کہ سمندر سے جب بھی کوئی بچہ اپنے کانٹے سے ایک آبی پرندہ پکڑتا اور ہاتھ آئے شکار کو لیکر دوڑتا ہوا کوڑومل کی دکان کے سامنے کھڑا ہوجاتا_
بچے پر اسکی نظر پڑتے ہی وہ پانچ دس پیسہ اسے تھما کر کہتے، اسے واپس سمندر میں چھوڑ دو!
وہ بچہ اس پرندے کو کسی دوسرے بچے کو سونپتا وہ پھر اسی پرندے کو لیکر کوڑو کی دکان کے سامنے آ جاتا، اس بچے کو بھی پیسے دیکر وہ پھر وہی جملہ دہراتا، اسے دوبارہ پانی میں چھوڑ دو!
شام تک ایک ہی پرندے کو وہ بچے کوڑومل کو دکھاتے اور اپنی خرچی اس سے بٹور لیتے تھے، وہ جانتا تھا کہ بچے اسکے ساتھ چیٹنگ کررہے ہیں لیکن وہ بچوں کا دل رکھنے کیلئے انہیں ایسی شرارت سے منع کر کے بھگوان کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے_ اس شہر میں بےشمار زمیندار اور سرمایہ دار بسنے کے باوجود بچے بھوک سے اس لیے بلکتے ہیں کیونکہ اس شہر میں اب کوئی کوڑومل نہیں رہتا_
No comments:
Post a Comment