قلمکار: جاویدحیات
پہلی تصویر میں ناخدا دادکریم اپنے بچے کو گود میں اٹھائے بہت دور کی سوچ رہا ہے، اسکی آنکھوں میں صرف ایک غبار دکھ رہا ہے جو چاروں طرف پھیلتا جارہا ہے اس کا کہنا ہے، "ہم نے اپنی زندگی جی لی لیکن آنے والی نسلوں کو اس بستی میں کڑے اور سخت چیلنجز کا سامنا ہوگا، انکے پاس ترقی تو ہوگی مگر معلوم نہیں انکے پاس سمندر ہوگا بھی یا نہیں!"
دوسری تصویر میں دیمی زر کے کنارے کی ہزار سالہ انمول تاریخ ہر دیکھنے والی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھتا ہے، اس میں ناخدا دادکریم سمندری طوفان تھمنے کے بعد اپنے کمسن بچے کے ساتھ ڈھوریہ کے کنارے پر چہل قدمی کرنے نکلے ہیں_افسوس اب یہ نظارے خواب میں بھی نہیں دکھتے_
کچھ دن پہلے گوادر پورٹ کے بزنس سینٹر میں چینی سفارت خانے کی تقریب میں وہ اپنے دیرینہ ساتھی ناخدا اکبر ملگ کے ساتھ بیٹھے نظر آئے_
یہ تقریب پچھلے دنوں حکومت چین کی طرف سے گوادر کے غریب گھرانوں کیلئے ایک لاکھ کلوگرام آٹے کی تقسیم کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی_
میں نے آج صبح فون پر کماڑی وارڈ سے تعلق رکھنے والے ناخدا دادکریم سے بات کی،اس نے بتایا،
"بزنس سینٹر میں چینی سفارت خانے کی اس تقریب میں قریب پانچ سو لوگوں نے شرکت کی_
اس تقریب میں ہم 13 لوگ نیشنل پارٹی کے کارکن تھے، ہماری پارٹی کا ماہی گیر نمائندہ آدم قادربخش نے اسٹیج پر تقریر بھی کی_
اسکی تقریر بھی سوشل میڈیا پہ ٹیکسٹ میسج کی صورت شیئر ہوچکی ہے_اس نے پہلے چینی کونسل جنرل کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ گوادر پورٹ کے واسطے یہاں کے مچھیروں نے اپنی زرخیز شکار گاہ مفت میں سونپ دی لیکن بدلے میں وہ لوگ آج بھی سی پیک کے ثمرات سے محروم ہیں_
گوادر عوام کو سی پیک کے ثمرات میں سے ہر وقت سولر، جال، آٹا، گھی اور چائے پتی کے چند پیکٹ ہی ملتے ہیں_
ناخدا دادکریم نے مزید بتایا کہ میرے سامنے ایک لمبے قد کا چائنیز افسر کھڑا تھا، وہ تھوڑی بہت اردو بولتا اور سمجھتا تھا، میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ امداد معذوروں، نابینا، بیواؤں اور یتیم بچوں میں تقسیم کریں، ہم قیمتی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں ہمارے باورچی خانوں میں آٹے کی بوریوں کا ڈھیر لگا ہے_
اس تقریب میں صرف ہم 13 لوگوں نے دس کلو آٹے کے یہ تھیلے نہیں اٹھائے_
تقریب ختم ہونے کے بعد آٹا لینے والے سب لوگوں کو بڑی گاڑی میں بٹھا کر پورٹ کے برتھ کی طرف لے گئے_آدم قادر بخش کو تقریر کے بعد ایک چینی افسر نے مسکراتے ہوئے ایک موبائل بھی گفٹ کیا تھا_"
یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور اسکی بازگشت چین تک سنائی دینے لگی ہےکہ گوادر میں آٹے کی تقسیم کے وقت بدنظمی اور کام کرنے والے مزدوروں اور گوادر پورٹ کے ملازموں کی دھکم پیل سے آٹے کی تقسیم کا عمل روک دیا گیا ہے_
بچے اور غریب عورتیں شام تک گوادر پورٹ کے مین گیٹ پر بھوکی پیاسی بیٹھی رہیں اور گوادر پورٹ کے ایمپلائز چینی حکومت کی طرف سے غریب گھرانوں کے آٹے کے پیکٹ لیکر دیمی زر ایکسپریس وے سے نکل گئے_
No comments:
Post a Comment